3 اپریل 2021 - 08:08
ایران-چین جامع تعاون کا تزویراتی سمجھوتہ - 2

صہیونی اخبار یدیعوت آہورونوت کی رپورٹ کے مطابق، یہودی ریاست کی فضائیہ کے سبکدوش جنرل، اور صہیونی ریاست کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ عاموس یادلین (Amos Yadlin) نے کہا ہے کہ "تل ابیب ایران اور چین کے مابین جامع تعاون کی دستاویز کی وجہ سے فکرمند ہے"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایران-چین تزویراتی تعاون کی 25 سالہ دستاویز / تعارفی جائزہ

ایران-چین جامع تعاون پروگرام کے دو فریق ہیں اور یہ فریقین کے لئے یکسان اہمیت رکھتا ہے اور اس کی دونوں کو ضرورت ہے۔ توانائی کی حفاظت ہمیشہ سے چینی پالیسی سازوں کی ترجیحات میں، اور تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ممالک کے ساتھ تعلقات کی تقویت اس کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ایجنڈے میں، شامل رہی ہے۔ تاہم گذشتہ برسوں میں ایران سمیت مختلف ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات "امریکہ کے ساتھ عدم تناؤ کی پالیسی" پر استوار تھے۔

چونکہ عرصۂ دراز سے امریکی پالیسی "سب کچھ سوا ایران کے" کی حکمت عملی پر استوار تھی، لہذا ایران کے ساتھ چین کے تعاون میں، امریکہ کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات کو زک نہ پہنچنے کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ لیکن جس وقت امریکہ نے تيانانمن (Tiananmen) اسکوائر کے واقعات کے بعد چین پر پابندیاں لگائیں تو ایران-چین تعلقات کے بہترین دور کا آغاز ہؤا اور آج بھی چینی اشخاص اور کمپنیوں پر امریکی پابندیاں اسی دور کو پلٹا سکتی ہیں۔

گوکہ آج حالات مختلف ہیں اور چینی معیشت میں ایک طاقتور طبقہ موجود ہے جو کمیونسٹ پارٹی میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس نے امریکہ میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے اور کسی صورت میں بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا خواہاں نہیں ہے؛ تاہم چین ایرانی تیل اور گیس کی عظیم استعداد اور اور اس کی جُغ-سیاسی حیثیت کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا اور سعودیہ کے ساتھ وسیع تعاون کے باوجود، چین نے توانائی کا پیاسا ہوتے ہوئے کبھی بھی ایران کے ساتھ تعلقات کو کبھی بھی خراب نہیں ہونے دیا ہے۔ اور پھر ہندوستان چین کا رقیب ہوتے ہوئے چابہار کی ترقی میں ایران کے ساتھ تعاون کررہا ہے اور یوں وہ چین کے لئے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔


دشمن کی تشویش، حوصلہ افزا ہے

ایران-چین معاہدے پر ایران کے دشمن نمبر ایک "امریکہ" کا اظہار تشویش

امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار (28 مارچ 2021ء) کی شام کو، صدارتی طیارے پر سوار ہوتے ہوئے ہوئے 25 سالہ ایران-چین معاہدے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "میں عرصے سے ایران اور چین کے باہمی تعاون سے فکرمند ہوں"۔

بائیڈن نے اسی سلسلے میں ایک نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: "میں گذشتہ ایک سال سے بہت فکرمند ہوں"۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے مذکورہ معاہدے کو پابندیوں پر مبنی امریکی پالیسیوں کو ناکام بنانے اور واشنگٹن کے معاندانہ اقدامات سے نمٹنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

یہودی ریاست کا اظہار تشویش

صہیونی اخبار یدیعوت آہورونوت کی رپورٹ کے مطابق، یہودی ریاست کی فضائیہ کے سبکدوش جنرل، اور صہیونی ریاست کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ عاموس یادلین (Amos Yadlin) نے کہا ہے کہ "تل ابیب ایران اور چین کے مابین جامع تعاون کی دستاویز کی وجہ سے فکرمند ہے"

اس رپورٹ کے مطابق ایران-چین تعاون دستاویز پر دستخطوں پر امریکی صدر جو بائیڈن کے اظہار تشویش کے چند ہی گھنٹے بعد یہودی ریاست کے فوجی جاسوسی ادارے کے سابق سربراہ عاموس یادلین نے کہا ہے کہ تل ابیب کو بھی تشویش لاحق ہوئی ہے!

عاموس کا کہنا تھا کہ ایران-چین جامع تعاون کی دستاویز مشترکہ فوجی مشقوں، تحقیق اور ترقی نیز معلومات کے تبادلے اور تعاون پر مشتمل ہے۔ ریٹائرڈ صہیونی انٹلیجنس اہلکار نے - مغربی ایشیا کی واحد جوہری صلاحیت رکھنے والی ریاست کے اندر بیٹھ کر - ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے کوششوں کا اپنا دیرینہ الزام دہرایا اور کہا: "چین ایک طرف سے ایران کے ہاتھوں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے خلاف ہے لیکن دوسری طرف سے وہ ایران کو جوہری اسلحے کے حصول سے روکنے سے باز رکھنے میں تعاون نہیں کرتا اور ایران کو توقع ہے کہ چین امریکی دباؤ کا سدباب کرے اور ادھر چین ٹرمپ اور بائیڈن کی حکومتوں کے درمیان کے فرق کو بخوبی سمجھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد وہ زیادہ جارحانہ رویہ اپنا سکتا ہے۔

یہودی ریاست کے دوسرے حکام نے بھی ایران-چین تعاون کی دستاویز پر تشویش ظاہر کی ہے اور اس دستاویز کو اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔

بائیڈن کی تشویش پر اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری کا رد عمل

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے ایران-چین تزویراتی تعاون کی نقشۂ روح دستاویز (Roadmap Document) پر فریقین کے وزرائے خارجہ کے دستخطوں پر امریکی صدر بائیڈن کے رد عمل کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ "اس دستاویز پر دستخط، فعال مقاومت (مزاحمت) پالیسی کا تسلسل ہے"۔

انھوں نے کہا کہ "مغرب ہی پوری دنیا نہیں ہے اور قانون شکن امریکہ اور تین عہد شکن یورپی ممالک [برطانیہ، فرانس اور جرمنی] ہی پوری مغربی دنیا نہیں کہلاتے۔

ایڈمرل شمخانی نے کہا: بائیڈن کی تشویش بالکل درست اور بجا ہے؛ کیونکہ مغرب میں تعاون کی بالیدگی امریکی زوال کی رفتار میں اضافہ کرتی ہے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل ایران اور چین کے وزرائے خارجہ نے ایک 25 سالہ جامع تعاون پروگرام پر دستخط کئے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے سوالات سوشل میڈیا پر اٹھائے جارہے ہیں اور آگاہ لوگ اپنی حد تک ان کا جواب دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ سوالات ایران اور چین کے دشمنوں کی طرف سے اٹھائے جارہے ہیں، جنہیں اس پروگرام نے فکرمند کر دیا ہے؛ اور ان کی فکرمندی اس معاہدے کی حقانیت کا ثبوت ہوسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف: فرحت حسین مہدوی